یزید کے ہلاک ہونے کے بعد مختار ابن زبیر رضہ کے ہمراہ ہی رہا، حصار ختم ہوگیا تھا اور شامی واپس شام جا چکے تھے جبکہ اہل کوفہ نے عامر بن مسعود کو اپنا امیر بنا لیا تھا تاکہ جب تک لوگ متفق نہیں ہوجاتے تب تک عامر بن مسعود کے ساتھ نماز پڑھا کریں عامر کو ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ اس نے ابن زبیر رضہ سے بیعت کرلی، یزید کے مرنے کے بعد 4 ماہ تک مختار ابن زبیر کے ساتھ ہی رہا، ایک دن مختار، ابن زبیر وغیرہ سب طوف کررہے تھے ، ابن زبیر رضہ نے جب مختار کو دیکھا تو انہوں نےابن صفوان سے مختار کی بابت کہا، اسے دیکھو جیسے ساتار وہن کا گرگ کثیر الحذر ہوتا ہے ، طواف سے فارغ ہوکر ابن صفوان سے مختار نے پوچھا کہ تم میرے بارے میں کیا بات کررہے تھے مگر صفوان نے بات کو چھپایا مگر مختار نے کہا کہ واللہ تم میری بابت ہی بات کررہے تھے ،واللہ ابن زبیر کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر میرے نقش قدم پر چلنا چاہئے ورنہ میں ان کیلئے آتش جنگ کو مشتعل کردوں گا پانچ ماہ تک جب مختار نے دیکھا کہ ابن زبیر رضہ نے اسے کوئی عہدہء امارت نہیں دیا تو کوفہ سے جو بھی آتا اس سے مختار اس سے کوفہ کے حالات کا پوچھتا ، رمضان میں ہانی بن الوداعی عمرہ کی نیت سے آیا مختار نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ کوفہ والے ابن زبیر کی اطاعت پر متفق ہیں، ہاں مگر ایک گروہ اور چند شہر والے ہیں اگر انکو کوئی متفق کرکے انہی کی رائے پر لے چلے تو ایک زمانہ تک وہ دنیا کو لوٹ لوٹ کرکھاسکتا ہے
اس دوران کوفہ میں ایک گروہ (جس کا اوپر بیان ہوا ہے) توابین سلیمان ابن صرد کی سربراہی میں وجود میں آچکا تھا اس گروہ میں کوفہ کے بہت سے لوگ شامل تھے جو اس بات پر پشیمان تھے کہ انہوں نے حسین رضہ کو کوفہ بلایا مگر ان کی نصرت نہ کرسکے ان پر ایک کلنک لگ چکا تھا جس دن انہیں امیر چنا گیا اس دن انہوں نے اپنے مکان پر نہات سخت تقریر کی اور کہا کہ ہم سے اللہ ناراض ہے اٹھو جب تک اللہ کو راضی نہ کرلو، اپنی بیویوں کے پاس بھی نہ جاؤ ، نیز اسی خطبے کو وہ ہر جمعہ میں دہراتے تھے، سلیمان بن صرد نے مدائن میں حذیفہ بن یمان رضہ کے فرزند سعد بن حذیفہ رضہ کو خط لکھا ( قتل حسین رضہ کا بدلہ لینے کے سلسلے میں )انہوں نے لوگوں کو خط سنایا اور سب نے حمائت کی اس دوران لوگوں نے کوفہ سے عمرو بن حریث پر حملہ کرکے نکال دیا تھا اور ببہ کو حاکم بنالیا تھا جسے لوگ گوبر کی گیند کہتے تھے اس کا قد ٹھینگے کے برابر تھا یہی لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا تھا اور اس نے ابن زبیر رضہ سے بیعت کرلی تھی، ابن صرد سب لوگوں کو بلا تفریق دعوت دیتے تھے اور زیادہ لوگ ابن صرد کے ہمراہ ہی تھے کہ یزید کی موت کے 6 ماہ بعد رمضان کی 15 تاریخ کو جمعہ کے دن کوفہ میں وارد ہوا، اور 22 رمضان کو عبداللہ بن یزید ابن زبیر رضہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم ہوکر آیا اور اس کے ہمراہ ابراہیم بن اعرج خراج کوفہ کا امیر ہوکر آیا، مختار کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا وہ کہتا تھا کہ لوگو میری طرف آؤ تاکہ میں خون حسین رضہ کا انتقام لوں، مگر لوگ کہتے تھے کہ شیخ الشیعہ سلیمان بن صرد ہیں، تو مختار کہنے لگا کہ میں مہدیء وقت محمد بن حنیفہ کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے مجھے اپنا وزیر، امین معتمد علیہ بناکر بھیجا ہے شیعوں سے اس طرح کی باتیں کرتے کرتے مختار نے بہت سارے لوگوں کو توڑ لیا، اور وہ مختار کے حکم کے منتظر رہنے لگے مگر بڑی جماعت ابنصرد کی ہی تھی، اس وجہ سے مختار ابن صرد کو اپنے مابین ایک بڑا مزاحم اور رکاوٹ سمجھتا تھا، مختار اپنے اصحاب سے کہتا تھا کہ سلیمان بن صرد کا ارادہ یہ ہے کہ یہ تم سب کو قتل کرواکر خود بھی قتل ہوجائے جبکہ اسے جنگ کا تجربہ بھی نہیں ہے
اس دوران کوفہ میں ایک گروہ (جس کا اوپر بیان ہوا ہے) توابین سلیمان ابن صرد کی سربراہی میں وجود میں آچکا تھا اس گروہ میں کوفہ کے بہت سے لوگ شامل تھے جو اس بات پر پشیمان تھے کہ انہوں نے حسین رضہ کو کوفہ بلایا مگر ان کی نصرت نہ کرسکے ان پر ایک کلنک لگ چکا تھا جس دن انہیں امیر چنا گیا اس دن انہوں نے اپنے مکان پر نہات سخت تقریر کی اور کہا کہ ہم سے اللہ ناراض ہے اٹھو جب تک اللہ کو راضی نہ کرلو، اپنی بیویوں کے پاس بھی نہ جاؤ ، نیز اسی خطبے کو وہ ہر جمعہ میں دہراتے تھے، سلیمان بن صرد نے مدائن میں حذیفہ بن یمان رضہ کے فرزند سعد بن حذیفہ رضہ کو خط لکھا ( قتل حسین رضہ کا بدلہ لینے کے سلسلے میں )انہوں نے لوگوں کو خط سنایا اور سب نے حمائت کی اس دوران لوگوں نے کوفہ سے عمرو بن حریث پر حملہ کرکے نکال دیا تھا اور ببہ کو حاکم بنالیا تھا جسے لوگ گوبر کی گیند کہتے تھے اس کا قد ٹھینگے کے برابر تھا یہی لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا تھا اور اس نے ابن زبیر رضہ سے بیعت کرلی تھی، ابن صرد سب لوگوں کو بلا تفریق دعوت دیتے تھے اور زیادہ لوگ ابن صرد کے ہمراہ ہی تھے کہ یزید کی موت کے 6 ماہ بعد رمضان کی 15 تاریخ کو جمعہ کے دن کوفہ میں وارد ہوا، اور 22 رمضان کو عبداللہ بن یزید ابن زبیر رضہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم ہوکر آیا اور اس کے ہمراہ ابراہیم بن اعرج خراج کوفہ کا امیر ہوکر آیا، مختار کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا وہ کہتا تھا کہ لوگو میری طرف آؤ تاکہ میں خون حسین رضہ کا انتقام لوں، مگر لوگ کہتے تھے کہ شیخ الشیعہ سلیمان بن صرد ہیں، تو مختار کہنے لگا کہ میں مہدیء وقت محمد بن حنیفہ کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے مجھے اپنا وزیر، امین معتمد علیہ بناکر بھیجا ہے شیعوں سے اس طرح کی باتیں کرتے کرتے مختار نے بہت سارے لوگوں کو توڑ لیا، اور وہ مختار کے حکم کے منتظر رہنے لگے مگر بڑی جماعت ابنصرد کی ہی تھی، اس وجہ سے مختار ابن صرد کو اپنے مابین ایک بڑا مزاحم اور رکاوٹ سمجھتا تھا، مختار اپنے اصحاب سے کہتا تھا کہ سلیمان بن صرد کا ارادہ یہ ہے کہ یہ تم سب کو قتل کرواکر خود بھی قتل ہوجائے جبکہ اسے جنگ کا تجربہ بھی نہیں ہے
1
2
0 comments:
Post a Comment