معاویہ نے مرتے وقت یزید کو جو وصیت کی تھی وہ سب مؤرخوں نے نقل کی ہے ابن طبری نے بھی اسے بیان کیا ہے یزید کو معاویہ نے کہا کہ میں نے تمہارے لئے راستہ ہموار کردیا ہے اور اتنی دولت جمع کردی ہے کہ آج تک کسی نے جمع نہیں کی اور سب عربوں کی گردنیں تمہارے لئے جھکادی ہیں مگر عبدالرحمیٰن بن ابوبکر رضہ عبداللہ بن عمررضہ ، عبداللہ بن زبیررضہ اور حسین رضہ تمہارے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں ان میں عبداللہ بن عمر رضہ کا کام عبادت نے تمام کردیا ہے اور حسین رضہ کو اہل عراق خروج پر آمادہ کئے بغیر نہ چھوڑیں گے ان پر قابو پانا تو معاف کردینا اورعبداللہ بن زبیر کینہ توز اور مکار ہے اگر اس پر قابو پانا تو اس کے ٹکڑے اڑادینا معاف ہرگز نہ کرنا اور عبدالرحمٰن بن ابو بکر رضہ ایسا ہے کہ اپنے اصحاب کو جوکام کرتے دیکھے گا کرنے لگے گا اور اہل مدینہ کی طرف سے باخبر رہنا اور انکی خبر لینا ہوگی اور اس کام کیلئے مسلم بن عقبہ بہترین آدمی ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاویہ کی زندگی میں ہی ان چار اصحاب رضہ کے خلاف باقاعدہ طور پر سازش کا آغاز کردیا گیا تھا جس میں حسین رضہ کو کچھ اصحاب رضہ نے اصلی خطوط لکھکر کوفہ بلوانا چاہا تو ایسے میں بہت سے دیگر خطوط بھی ان تک پہنچے اور ڈوزی رائن ہارٹ بیان کرتا ہے کہ یہ خطوط دو اونٹوں پر لاد کر حضرت حسین رضہ کربلا ہمراہ لے گئے تھے اور جب آپ کوفہ کیلئے نکلے تو آپکو کربلا کے میدان میں محصور کرکے بھوکا پیاسا اہل بیت سمیت شہید کردیا گیا اور آپکی خواتین کوذلیل و رسوا کیا گیا اور صرف ایک بیمار مرد کو زندہ چھوڑا گیا اور عبدالرحمٰن بن ابو بکر رضہ کو خفیہ طریقے سے زہر دے کر مکہ میں شہید کردیا گیا اور ابن زبیر رضہ کو حجاج بن یوسف نے مکہ میں شہید کردیا
اس فلم میں بہت سے مقامات پر تعصب بھی ملے گا ابن زبیر رضہ کے سلسلے میں ۔،، کہ انہوں نے خلافت کا دعویٰ کیا اور انکی خلافت باطل تھی وغیرہ وغیرہ مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ کم از کم معاویہ و یزید کے خلاف ہی تھے اور حضرت حسین رضہ کے خون پر آبدیدہ و رنجیدہ ،، اگر ہم اس بات کو بنیاد بنائیں کے انکے والد زبیر بن عوام رضہ جمل میں علی رضہ کے خلاف لڑے تھے تو یہ کوئی وجہ نہیں کیونکہ اس طرح بہت سے اصحاب جو عائشہ رضہ کی طرف سے جمل میں تھے بعد میں ان میں سے کسی نے بھی علی رضہ یا اہل بیت کے خلاف کوئی فساد کھڑا نہیں کیا اور نہ کسی برے فعل میں امویوں کا ساتھ دیا اس وقت خوف کے سائے اتنے گہرے تھے کہ جس کے بارے میں خطرہ ہوتا کہ یہ سر اٹھائے گا اس سر کو کاٹ دیا جاتا تھا خواہ مجمع عام میں خواہ خفیہ طریقے سے ۔۔ اس طرح مختار نے بھی تو بعد میں عراق کی حکومت بدلے ابن زبیر رضہ کی بیعت کی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کے دل میں فقط کربلا کا بدلہ لینے کا سودا سمایا ہوا تھا تو اس نے سعد بن عمر اور چند ایک دیگر کو قتل کرنے میں توقف کیوں کیا اور محمد بن حنیفہ کے افسوس طاہر کرنے کے بعد انکو قتل کیا اور علی رضہ نے تو مثلہ کرنے سے منع کیا تھا مگر مختار نے کونسا علی رضہ کی وصیت پر عمل کیا ؟ مطلب یہ ہے کہ جو غلط ہے جس نے غلط کام کیا اس کو غلط کہنے میں کوئی عار نہیں کسی کے بارے میں ایسے ہی تاویل کرنا اچھامعلوم نہیں ہوتا
عباس بن سہل بن سعد بیان کرتا ہے کہ میں مکہ میں ابن زبیر رضہ کے پاس بیٹھا تھا کہ مختار ثقفی آیا اس نے ابن زبیر رضہ کو سلام کیا ابن زبیر نے جواب دیا اور مختار کا خیر مقدم کیا اور اس سے کوفہ کے حالات پوچھے مختار نے کہا کہ سب تو بظاہر حاکم کے دوست ہیں مگر باطن میں گالیاں دیتے اور لعنت بھیجتے ہیں ابن زبیر رضہ نے کہا کہ برے غلاموں کی یہی خصلت ہے کہ آقا کے سامنے خدمت و اطاعت پر کمر بستہ اور پیٹھ پیچھے گالیاں دیتے ہیں مختار تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر ایسے بولا جیسے راز کی بات کہنے لگا ہو اور بولا اے ابن زبیر رضہ کس بات کے منتظر ہو ہاتھ بڑھاؤ میں تم سے بیعت کرتا ہوں حجاز کو تم دبابیٹھ سب عرب آپکا ساتھ دینگے اور ہم کو ایسا کچھ دو کہ ہم خوش ہوجائیں پھر مختار وہاں سے چلا گیا اور ایک سال گزر گیا اسے کسی نے نہیں دیکھا
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاویہ کی زندگی میں ہی ان چار اصحاب رضہ کے خلاف باقاعدہ طور پر سازش کا آغاز کردیا گیا تھا جس میں حسین رضہ کو کچھ اصحاب رضہ نے اصلی خطوط لکھکر کوفہ بلوانا چاہا تو ایسے میں بہت سے دیگر خطوط بھی ان تک پہنچے اور ڈوزی رائن ہارٹ بیان کرتا ہے کہ یہ خطوط دو اونٹوں پر لاد کر حضرت حسین رضہ کربلا ہمراہ لے گئے تھے اور جب آپ کوفہ کیلئے نکلے تو آپکو کربلا کے میدان میں محصور کرکے بھوکا پیاسا اہل بیت سمیت شہید کردیا گیا اور آپکی خواتین کوذلیل و رسوا کیا گیا اور صرف ایک بیمار مرد کو زندہ چھوڑا گیا اور عبدالرحمٰن بن ابو بکر رضہ کو خفیہ طریقے سے زہر دے کر مکہ میں شہید کردیا گیا اور ابن زبیر رضہ کو حجاج بن یوسف نے مکہ میں شہید کردیا
اس فلم میں بہت سے مقامات پر تعصب بھی ملے گا ابن زبیر رضہ کے سلسلے میں ۔،، کہ انہوں نے خلافت کا دعویٰ کیا اور انکی خلافت باطل تھی وغیرہ وغیرہ مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ کم از کم معاویہ و یزید کے خلاف ہی تھے اور حضرت حسین رضہ کے خون پر آبدیدہ و رنجیدہ ،، اگر ہم اس بات کو بنیاد بنائیں کے انکے والد زبیر بن عوام رضہ جمل میں علی رضہ کے خلاف لڑے تھے تو یہ کوئی وجہ نہیں کیونکہ اس طرح بہت سے اصحاب جو عائشہ رضہ کی طرف سے جمل میں تھے بعد میں ان میں سے کسی نے بھی علی رضہ یا اہل بیت کے خلاف کوئی فساد کھڑا نہیں کیا اور نہ کسی برے فعل میں امویوں کا ساتھ دیا اس وقت خوف کے سائے اتنے گہرے تھے کہ جس کے بارے میں خطرہ ہوتا کہ یہ سر اٹھائے گا اس سر کو کاٹ دیا جاتا تھا خواہ مجمع عام میں خواہ خفیہ طریقے سے ۔۔ اس طرح مختار نے بھی تو بعد میں عراق کی حکومت بدلے ابن زبیر رضہ کی بیعت کی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کے دل میں فقط کربلا کا بدلہ لینے کا سودا سمایا ہوا تھا تو اس نے سعد بن عمر اور چند ایک دیگر کو قتل کرنے میں توقف کیوں کیا اور محمد بن حنیفہ کے افسوس طاہر کرنے کے بعد انکو قتل کیا اور علی رضہ نے تو مثلہ کرنے سے منع کیا تھا مگر مختار نے کونسا علی رضہ کی وصیت پر عمل کیا ؟ مطلب یہ ہے کہ جو غلط ہے جس نے غلط کام کیا اس کو غلط کہنے میں کوئی عار نہیں کسی کے بارے میں ایسے ہی تاویل کرنا اچھامعلوم نہیں ہوتا
عباس بن سہل بن سعد بیان کرتا ہے کہ میں مکہ میں ابن زبیر رضہ کے پاس بیٹھا تھا کہ مختار ثقفی آیا اس نے ابن زبیر رضہ کو سلام کیا ابن زبیر نے جواب دیا اور مختار کا خیر مقدم کیا اور اس سے کوفہ کے حالات پوچھے مختار نے کہا کہ سب تو بظاہر حاکم کے دوست ہیں مگر باطن میں گالیاں دیتے اور لعنت بھیجتے ہیں ابن زبیر رضہ نے کہا کہ برے غلاموں کی یہی خصلت ہے کہ آقا کے سامنے خدمت و اطاعت پر کمر بستہ اور پیٹھ پیچھے گالیاں دیتے ہیں مختار تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر ایسے بولا جیسے راز کی بات کہنے لگا ہو اور بولا اے ابن زبیر رضہ کس بات کے منتظر ہو ہاتھ بڑھاؤ میں تم سے بیعت کرتا ہوں حجاز کو تم دبابیٹھ سب عرب آپکا ساتھ دینگے اور ہم کو ایسا کچھ دو کہ ہم خوش ہوجائیں پھر مختار وہاں سے چلا گیا اور ایک سال گزر گیا اسے کسی نے نہیں دیکھا
1
2
0 comments:
Post a Comment