کعبہ میں آگ لگنے کے بعد مکہ میں اطلاع پہنچی کہ یزید مر گیا ایک روائت کے مطابق اس کی عمر 32 سال اور 6 مہینے تھی، ابن نمیر مکہ والوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھا ابن زبیر رضہ اور ان کے اصحاب تنگ آگئے تھے یزید کے مرنے کی اطلاع ابن زبیر رضہ کو ہوگئی جبکہ ابن نمیر کا لشکر اور خود ابن نمیر کو بھی اس کی اطلاع نہ تھی، دونوں لشکروں میں تلواریں چل رہی تھیں کہ ابن زبیر نے پکارا کہ اے اہل شام تمہارا طاغوت مرگیا مختلف روایات ہیں ایک یہ ہے کہ یزید کی موت سن کر شام والوں نے مکہ پر شدید حملہ کردیا اور ابن نمیر ابن زبیر کے قریب آیا کہ ایک گھوڑے نے حرم میں لید کردی اور ایک کبوتر اس لید پر گرا تو ابن نمیر اسے بچانے لگا ابن زبیر نے سبب پوچھا تو بولا مجھے ڈر ہوا کہ کہیں حرم کا کبوتر گھوڑوں کی ٹاپ سے نہ کچلا جائے ابن زبیر رضہ گویا ہوئے کبوتروں کا تو اتنا خیال اور انسانوں کی ذرا فکر نہیں جن کو تم نے قتل کیا
جبکہ دوسری روائت یہ ہے کہ اہل شام مکہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ابن نمیر کا ایک رشتہ دار جو کہ معاویہ کے دربار میں بھی ابن نمیر سے مل چکا تھا اور بعد میں اس سے رشتہ داری بھی ہوگئی تھی اس کانام ثابت بن قیس نخعی تھا اس سے ابن نمیر نے یزید کی بابت پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ مرگیا
ابن نمیر نے یہ سن کر ابن زبیر رضہ کی جانب پیام بھیجا کہ آج شام مجھے مقام ابطخ میں ملو، جب ملاقات ہوئی تو ابن نمیر نے کہا کہ یزید کے بعد کوئی بھی آپ سے زیادہ خلافت کا حقدار نہیں ہے آپ شام چلو اور ہمیں امان دے کر مطمئن کردو ، واللہ جو شخص بھی آپکی بیعت سے انکار نہ کریں گے، اور مزید یہ کہا کہ اہل مدینہ اور ہمارے درمیان جو خونریزی ہوئی ہے اس سے چشم پوشی کرو، (عمر ابن سعید نے کہا تھا کہ اگر ابن زبیر رضہ ابن نمیر کی بات مان لیتا تو اہل شام میں سے کوئی بھی ابن زبیر رضہ کی بیعت سے انکار نہ کرتا) ابن زبیر نے کہا کہ اہل مدینہ کو جو تم نے قتل کیا ہے اگر ہر آدمی کے بدلے میں دس دس آدمی بھی قتل نہ کروں توبھی مجھے چین نہآئے ابن نمیر چپکے چپکے باتیں کرتا تھا جبکہ ابن زبیر رضہ پکار کر کہتے تھے ،،واللہ مجھ سے یہ نہیں ہوگا،، تو ابن نمیر نے ناراض ہوکر کہا کہ میں تم کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں اور تم مجھے قصاص و قتل کی دھمکی دیتے ہو
اہل شام نے نادانستگی میں سب جنگیں لڑی ہیں کیونکہ معاویہ اور عمر بن العاص کی سیادت و سیاست پورے عرب میں مشہور تھی انہوں نے اہل شام کے عقیدوں کو مکمل طور پر اغوا کرلیا تھا اور جس کے بارے میں خدشہ ہوتا تھا اسے زر وجواہر سے خرید لیا جاتا تھا اور جو بکتا نہیں تھا اس کا سر اتار لیا جاتا تھا حتیٰ کے مسلم بن عقبہ یہی سمجھتا تھا کہ اگر اس نے زندگی میں کوئی نیکی کی ہے تو وہ اہل مدینہ کی گوشمالی ہے جس پر مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کردے گا
بہت ساری باتیں ہمارے محترم صاحبا ن بھی خیالی قائم کئے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان نزع بڑھتا ہی جاتا ہے اور ایک انتہائی اہم بات کہ حضرت عیسیٰ عہ کی بشارت کے بعد کہ ایک نبی کھجوروں والے شہر میں آئے گا(یثرب)تو تمام اہل یہود اسی وقت ہجرت کرکے عرب میں آگئے تھےا ور چند سالوں میں ہی عرب کی سیاست، معاشرت، تعلیم، حکومت اور معاشیات میں رسوخ حاصل کرچکے تھے جن کے صدر مقام گرمیوں و سردیوںکے اعتبار سے طائف اور مکہ تھے اور انکی سازشیں اسی وقت سے شروع تھیں جب سے انکو عیسیٰ عہ نے خبر دی تھی، وہ ارض عرب کو ایک نبی کی آمد سے پہلے ہی فساد زدہ کردینا چاہتے تھے اور اگر نبی آبھی جائے تو اسےا سی وقت ٹھکانے لگادیا جائے مگر وہ محمد صلعم کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکے مگر انکی وفات کے بعد ابو بکرصدیق رضہ کے دور میں انکی سازشیں کبھی جھوٹے انبیاء کے طور پر اور کبھی مانعین زکوٰۃ، اور کبھی احکام شرعی میں ردو بدل کی صورت میں سامنےآگئیں ، ان کے خلاف انضباطی کاروائی کا آغاز ابو بکر صدیق رضہ نے شروع کیا کہ انکی وفات ہوگئی ، اور ان کے بعد عمر ابن خطاب رضہ نے واضح حکمت عملی کے تحت بالآخر انکو بیت المقدس (عرب )سے باہر نکال دیا (محمد صلعم کی وصیت کے مطابق جس کا آغاز علی رضہ کے ہاتھوں خیبر میں ہوا تھا) ان شکستوں کے بعداہل یہود غضبناک ہوگئے اور حکمت عملی تبدیل کرکے عثمان رضہ کے دور میں دوبارہ عامل ہوگئے اور تاریخ اسلام کو خون میں ڈبودیا ، مختصر یہ کہ جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کہیں بھی اہل یہود کا ذکر نہیں پاتے جبکہ قرآن پاک نے ہمہ وقت ان کی سازشوں اور حسد سے خبردار رہنے کا حکم دیا ہے جن لوگوں نے خاتم ا لنبیین صلعم کی زندگی میں ہی ان پر حملے کرکے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ، اہل بصیرت بخوبی جانتے ہیں کہ ایک نبی یا رسول کی ارض پر موجودگی کیا مطلب رکھتی ہے تو ختم رسالت کے مظہر کی موجودگی تو اس ارض پر سب سے بڑا امر تھا انکی موجودگی میں جو قوم بعض نہ آئی انکا انکار کرنے سے وہ بھلا انکی غیر موجودگی میں باز آنے والی تھی؟ مگر حیرت ہے کہ ساری تاریخ اسلامی سے انکا ذکر ہی غائب کردیا گیا ہے
جبکہ دوسری روائت یہ ہے کہ اہل شام مکہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ابن نمیر کا ایک رشتہ دار جو کہ معاویہ کے دربار میں بھی ابن نمیر سے مل چکا تھا اور بعد میں اس سے رشتہ داری بھی ہوگئی تھی اس کانام ثابت بن قیس نخعی تھا اس سے ابن نمیر نے یزید کی بابت پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ مرگیا
ابن نمیر نے یہ سن کر ابن زبیر رضہ کی جانب پیام بھیجا کہ آج شام مجھے مقام ابطخ میں ملو، جب ملاقات ہوئی تو ابن نمیر نے کہا کہ یزید کے بعد کوئی بھی آپ سے زیادہ خلافت کا حقدار نہیں ہے آپ شام چلو اور ہمیں امان دے کر مطمئن کردو ، واللہ جو شخص بھی آپکی بیعت سے انکار نہ کریں گے، اور مزید یہ کہا کہ اہل مدینہ اور ہمارے درمیان جو خونریزی ہوئی ہے اس سے چشم پوشی کرو، (عمر ابن سعید نے کہا تھا کہ اگر ابن زبیر رضہ ابن نمیر کی بات مان لیتا تو اہل شام میں سے کوئی بھی ابن زبیر رضہ کی بیعت سے انکار نہ کرتا) ابن زبیر نے کہا کہ اہل مدینہ کو جو تم نے قتل کیا ہے اگر ہر آدمی کے بدلے میں دس دس آدمی بھی قتل نہ کروں توبھی مجھے چین نہآئے ابن نمیر چپکے چپکے باتیں کرتا تھا جبکہ ابن زبیر رضہ پکار کر کہتے تھے ،،واللہ مجھ سے یہ نہیں ہوگا،، تو ابن نمیر نے ناراض ہوکر کہا کہ میں تم کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں اور تم مجھے قصاص و قتل کی دھمکی دیتے ہو
اہل شام نے نادانستگی میں سب جنگیں لڑی ہیں کیونکہ معاویہ اور عمر بن العاص کی سیادت و سیاست پورے عرب میں مشہور تھی انہوں نے اہل شام کے عقیدوں کو مکمل طور پر اغوا کرلیا تھا اور جس کے بارے میں خدشہ ہوتا تھا اسے زر وجواہر سے خرید لیا جاتا تھا اور جو بکتا نہیں تھا اس کا سر اتار لیا جاتا تھا حتیٰ کے مسلم بن عقبہ یہی سمجھتا تھا کہ اگر اس نے زندگی میں کوئی نیکی کی ہے تو وہ اہل مدینہ کی گوشمالی ہے جس پر مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کردے گا
بہت ساری باتیں ہمارے محترم صاحبا ن بھی خیالی قائم کئے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان نزع بڑھتا ہی جاتا ہے اور ایک انتہائی اہم بات کہ حضرت عیسیٰ عہ کی بشارت کے بعد کہ ایک نبی کھجوروں والے شہر میں آئے گا(یثرب)تو تمام اہل یہود اسی وقت ہجرت کرکے عرب میں آگئے تھےا ور چند سالوں میں ہی عرب کی سیاست، معاشرت، تعلیم، حکومت اور معاشیات میں رسوخ حاصل کرچکے تھے جن کے صدر مقام گرمیوں و سردیوںکے اعتبار سے طائف اور مکہ تھے اور انکی سازشیں اسی وقت سے شروع تھیں جب سے انکو عیسیٰ عہ نے خبر دی تھی، وہ ارض عرب کو ایک نبی کی آمد سے پہلے ہی فساد زدہ کردینا چاہتے تھے اور اگر نبی آبھی جائے تو اسےا سی وقت ٹھکانے لگادیا جائے مگر وہ محمد صلعم کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکے مگر انکی وفات کے بعد ابو بکرصدیق رضہ کے دور میں انکی سازشیں کبھی جھوٹے انبیاء کے طور پر اور کبھی مانعین زکوٰۃ، اور کبھی احکام شرعی میں ردو بدل کی صورت میں سامنےآگئیں ، ان کے خلاف انضباطی کاروائی کا آغاز ابو بکر صدیق رضہ نے شروع کیا کہ انکی وفات ہوگئی ، اور ان کے بعد عمر ابن خطاب رضہ نے واضح حکمت عملی کے تحت بالآخر انکو بیت المقدس (عرب )سے باہر نکال دیا (محمد صلعم کی وصیت کے مطابق جس کا آغاز علی رضہ کے ہاتھوں خیبر میں ہوا تھا) ان شکستوں کے بعداہل یہود غضبناک ہوگئے اور حکمت عملی تبدیل کرکے عثمان رضہ کے دور میں دوبارہ عامل ہوگئے اور تاریخ اسلام کو خون میں ڈبودیا ، مختصر یہ کہ جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کہیں بھی اہل یہود کا ذکر نہیں پاتے جبکہ قرآن پاک نے ہمہ وقت ان کی سازشوں اور حسد سے خبردار رہنے کا حکم دیا ہے جن لوگوں نے خاتم ا لنبیین صلعم کی زندگی میں ہی ان پر حملے کرکے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ، اہل بصیرت بخوبی جانتے ہیں کہ ایک نبی یا رسول کی ارض پر موجودگی کیا مطلب رکھتی ہے تو ختم رسالت کے مظہر کی موجودگی تو اس ارض پر سب سے بڑا امر تھا انکی موجودگی میں جو قوم بعض نہ آئی انکا انکار کرنے سے وہ بھلا انکی غیر موجودگی میں باز آنے والی تھی؟ مگر حیرت ہے کہ ساری تاریخ اسلامی سے انکا ذکر ہی غائب کردیا گیا ہے
1
2
0 comments:
Post a Comment