Episode 11(نوشدارو) Panacea کھانے کی دوا
مختار کوفہ سے نکلا اور حجاز کے راستے پر روانہ ہوا تھا کہ وافضہ کے اس طرف اسکی ملاقات بنو ثقئف کے موالی ابن العرق سے ہوئی وہ مختار سے بہت انس و محبت سے پیش آیا، اس نے مختار کی زخمی آنکھ کی بابت پوچھا تو بولا کہ ابن زیاد نے لکڑی ماری جس کی وجہ سے زخم آیا ہے اور مختار نے مزید کہا کہ میں اس سے ضرور بدلا لوں گا اس کے ہاتھ پیر اور رگ و پے ضرور کاٹوں گا، ابن العرق بولا اللہ تم پر رحم کرے یہ بات کیا سوچ کرکہی تو مختار بولا اسے یاد رکھنا میں ایسا ضرور کرونگا
پھر مختار نے ابن زبیررضہ کے بارے میں پوچھا تو ابن العرق بولا کہ انہوں نے کعبہ میں پناہ لی ہے اور کہتے ہیں کہ میں رب کعبہ کی پناہ میں ہوں ، مگر لوگوں میں مشہور ہے کہ چھپ چھپ کر بیعتیں لیتے ہیں اور میراخیال ہے کہ اگر وہ طاقتور ہوں جائیں تو وہ بھی مخالفت ظاہر کردینگے مختار بولا بے شک آج وہ عرب میں ممتاز ہیں اگر وہ میرے کہنے پر چلے تو میں ان کو زحمت سے بچالونگا ورنہ مجھے بھی کوئی اور ممتاز شخصیت مل جائے گی اور مزید کہا کہ دیکھو ابن العرق طوفان اٹھا ہے فتننہ فساد پید اہوگیا ہے اور یہ کہ تم سنو گے کہ میں نے شہدائے کربلا کے خون کا بدلہ لینے کیلئے علم بلند کیا ہے
اسی قسط میں سانحہ کربلا کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے اور ابن قین جو کہ حسین رضہ کے ہمراہ ہولیا تھا اس نے کس بہادری سے مقابلہ کیا اور حسین رضہ پر جان واردی اور پھر یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کیسے حسین رضہ کو شہید کرنے کے بعد ان کے جسد خاکی کی بےحرمتی کی گئی ان کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے اس فلم میں صرف مختصراً حالات بابت سانحہ کربلا بیان کیئے گئے ہیں ورنہ اس جنگ کی تفصیلات کئی دسیوں صفحات میں بیان کی جاسکتی ہے اور حسین رضہ کو شہید کرنے کے بعد اہل بیت کی بیبیوں کی شان میں کس طرح گستاخی کی گئی حتیٰ کہ ایک راوی بیان کرتا ہے کہ ایک بی بی کے سر سے چادر کھینچ لی گئی اور اس چادر کو کوئی دوسرا کھینچ کر لے گیا اور ان بیبیوں کو آج سے پہلے کسی نے کبھی بھی نہ دیکھا تھا حتیٰ کہ جب یزید کے دربار میں زینب رضہ اور دیگر خواتین اہل بیت کو لیجایا گیا تو ایک مرد نے زینب رضہ کی چھوٹی بہن پر خواہش کی کہ اے یزید اسے مجھے بخش دیا جاوے تو زینب رضہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو یزید غضبناک ہوکے بولا کہ میں حاکم ہوں مجھے اختیار ہے تو حضرت زینب رضہ نے بےباکی سے جواب دیا کہ تجھے کوئی اختیار نہیں سوائے اس کے کہ تو دین سے نکل جائے
غم و اندوہ کی یہ داستان اتنی رقت انگیز ہے کہ بیان کیلئے جگر چاہئے حیرت ہےاردو مترجمین پر کہ وہ بہت سے واقعات و سانحات کو اردو کے قالب میں ڈھالتے ہی نہیں اور سطروں یا صفحون کو ترجمہ ہی نہیں کرتے اسی طرح بہت سی کتابیں جو ان واقعات کی تفصیلات سے پر ہیں ایسی کتابیں ہنوز اردو میں ترجمہ ہونے کی منتظر ہیں
پھر مختار نے ابن زبیررضہ کے بارے میں پوچھا تو ابن العرق بولا کہ انہوں نے کعبہ میں پناہ لی ہے اور کہتے ہیں کہ میں رب کعبہ کی پناہ میں ہوں ، مگر لوگوں میں مشہور ہے کہ چھپ چھپ کر بیعتیں لیتے ہیں اور میراخیال ہے کہ اگر وہ طاقتور ہوں جائیں تو وہ بھی مخالفت ظاہر کردینگے مختار بولا بے شک آج وہ عرب میں ممتاز ہیں اگر وہ میرے کہنے پر چلے تو میں ان کو زحمت سے بچالونگا ورنہ مجھے بھی کوئی اور ممتاز شخصیت مل جائے گی اور مزید کہا کہ دیکھو ابن العرق طوفان اٹھا ہے فتننہ فساد پید اہوگیا ہے اور یہ کہ تم سنو گے کہ میں نے شہدائے کربلا کے خون کا بدلہ لینے کیلئے علم بلند کیا ہے
اسی قسط میں سانحہ کربلا کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے اور ابن قین جو کہ حسین رضہ کے ہمراہ ہولیا تھا اس نے کس بہادری سے مقابلہ کیا اور حسین رضہ پر جان واردی اور پھر یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کیسے حسین رضہ کو شہید کرنے کے بعد ان کے جسد خاکی کی بےحرمتی کی گئی ان کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے اس فلم میں صرف مختصراً حالات بابت سانحہ کربلا بیان کیئے گئے ہیں ورنہ اس جنگ کی تفصیلات کئی دسیوں صفحات میں بیان کی جاسکتی ہے اور حسین رضہ کو شہید کرنے کے بعد اہل بیت کی بیبیوں کی شان میں کس طرح گستاخی کی گئی حتیٰ کہ ایک راوی بیان کرتا ہے کہ ایک بی بی کے سر سے چادر کھینچ لی گئی اور اس چادر کو کوئی دوسرا کھینچ کر لے گیا اور ان بیبیوں کو آج سے پہلے کسی نے کبھی بھی نہ دیکھا تھا حتیٰ کہ جب یزید کے دربار میں زینب رضہ اور دیگر خواتین اہل بیت کو لیجایا گیا تو ایک مرد نے زینب رضہ کی چھوٹی بہن پر خواہش کی کہ اے یزید اسے مجھے بخش دیا جاوے تو زینب رضہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو یزید غضبناک ہوکے بولا کہ میں حاکم ہوں مجھے اختیار ہے تو حضرت زینب رضہ نے بےباکی سے جواب دیا کہ تجھے کوئی اختیار نہیں سوائے اس کے کہ تو دین سے نکل جائے
غم و اندوہ کی یہ داستان اتنی رقت انگیز ہے کہ بیان کیلئے جگر چاہئے حیرت ہےاردو مترجمین پر کہ وہ بہت سے واقعات و سانحات کو اردو کے قالب میں ڈھالتے ہی نہیں اور سطروں یا صفحون کو ترجمہ ہی نہیں کرتے اسی طرح بہت سی کتابیں جو ان واقعات کی تفصیلات سے پر ہیں ایسی کتابیں ہنوز اردو میں ترجمہ ہونے کی منتظر ہیں
1
2
0 comments:
Post a Comment