ہر فنکار خواہ وہ مغنی ہو، موسیقار ہو، مصنف ہو، مہندس ہو یا مؤرخ ہو ،،،ہرایک کا فن الگ الگ ہے اسی طرح اگر بہت سارے لکھنے والے جمع کردئے جائیں تو ان میں سے ہرکا انداز بیان الگ الگ ہوگا ، کسی کا اچھا، کسی کا بہت اچھا اور کسی کا بہترین
تاریخ و فلسفہء تاریخ ایک ایسا مضمون ہے کہ جس میں قربت و محبت یا طرفداری کی گنجائش قطعی نہیں ہوتی ایک ایماندار مؤرخ کو چاہئے کہ وہ واقعات و حادثات کا جائزہ لیتے ہوئے غیرجانبدار رہے
عبداللہ بن عمر رضہ جو کہ خلیفہءدوم امیرالموءمنین عمر بن خطاب رضہ کے صاحبزادے تھے مختار ثقفی کی ایک بہن ان کے نکاح میں تھی ، مختار نے خفیہ طریقہ سے مکہ میں اپنے بہنوئی کو اپنی رہائی کیلئے پیغام بھیجا ، المختصر عبداللہ بن عمر رضہ کی بدولت مختار کی رہائی عمل میں آئی ابن زیاد نے مختار کو تین دن کی مہلت دے کر کوفے سے نکل جانے کا کہا اور زائدہ کے خلاف ہوگیا کہ کیوں یزید سے پروانہء آزادیء مختار لیکر آیا جبکہ میں اسے ابھی قید میں رکھنا چاہتا ہوں اس نے زائدہ کو گرفتار کرنے کیلئے حکم دیا کسی نے زائدہ کو بتادیا کہ جان بچاکر بھاگ جا، زائدہ وہاں سے چھپتے چھپتے اپنے قوم کے لوگوں کو ساتھ لیکر قعقاع ذہلی اور مسلم باہلی کے پا س آیا اور انہوں نے زائدہ کیلئے ابن زیاد سے امان لی
1
2
0 comments:
Post a Comment